محترم حکیم صاحب السلام علیکم! آپ کا ماہنامہ عبقری سب کیلئے کسی قیمتی تحفے سے کم نہیں۔ میرے بارہا رشتےآئے مگر میرے والدین کو کوئی دلچسپی نہ تھی‘ مگر عبقری رسالے میں سے دوانمول خزانے کا پڑھ کر دو انمول خزانہ پڑھنا شروع کردیا جس سے میری زندگی سنور گئی۔ میری ایک جگہ منگنی ہوگئی ہے۔ عنقریب میری وہاں شادی ہے۔
اب جو میرا مسئلہ ہے وہ میری زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ بنا ہواہے جس نے مجھے بہت زیادہ ڈسٹرب کیا ہوا ہے۔ میں تین بھائیوں کی اکلوتی بہن ہوں اور میری عمر اب 30 سال سے زیادہ ہوچکی ہے۔ میں ایک مقامی کالج میں پروفیسر ہوں اور مزید تعلیم جاری رکھے ہوئے ہوں۔ لڑکا انجینئر ہے لیکن سپیشلائزیشن کا امتحان پاس نہیں ہورہا۔ میں ایک شہری لڑکی ہوں اور وہ گاؤں کاہے۔ لیکن اب انہوں نے عجیب عجیب قسم کی ڈیمانڈز شروع کردی ہیں مثلاً لڑکے والوں کے پورے خاندان کو 300 جوڑے بارات پر اور 300 جوڑے شادی کے ساتویں دن دینے ہیں۔ ولیمے کا ان کی طرف کوئی دستور نہیں ہے۔ مزید ساس کو‘ نند کو‘ پھوپھیوں کو پانچ پانچ تولے سونے کے سیٹ دینے ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت زیادہ ڈیمانڈز ہیں۔ جب میں نے نکاح جیسے پاک بندھن کے جوڑے کا ذکر کیا تو میرے منگیتر نے غصے میں آکر مجھ سے وقتی طور پر رابطہ ہی ختم کردیا کہ ہم میں دستور نہیں ہے تم کوئی اور لڑکا ڈھونڈ لو۔
محترم حکیم صاحب! اب میرے والدین اور گھر والے مجھےجو بھی چیز جہیز میں دے رہے ہیں تو طعنے بھی دے رہے ہیں کہ اُن کی لاٹری نکل آئی ہے تم تو شہر یا ہاسٹل میں رہو گی ادھر گاؤں میں وہ تمہارا سامان استعمال کریں گے۔ مجھے میرے سسرال کی باتوں سے صاف صاف لالچ ٹپکتی دکھائی دے رہی ہے۔ لڑکے کا دن بدن مجھ میں انٹرسٹ بھی کم دکھائی دے رہا ہے‘ ہروقت مجھے‘ میرے ماں باپ اور چیزوں کے طعنے دیتا ہے۔ مجھے تو اپنے مستقبل کی فکر کھائے جارہی ہے کہ ہمارا مستقبل کیا ہوگا اور کیا کیا مشکل ڈیمانڈز میں پوری کرپاؤں گی؟ نہ جانے کب کیا ڈیمانڈ آجائے۔۔۔؟؟؟ میرے والدین کا دل لڑکے اور اس کے خاندان اور ان کا دل میرے والدین سے بدظن ہوچکا ہے اب تو میرا دل شادی جیسے خوبصورت بندھن سے بھر آیا ہے جو کہ رسم و رواج کی بھینٹ چڑھ رہی ہے۔ حکیم صاحب! میں نے تو اپنا گھر بسانا چاہا تھا پھر میرےساتھ ایسا کیوں ہورہا ہے۔میں کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ پتہ نہیں کتنے گھر اس جہیز جیسی لعنت کی وجہ سے بستے بستے اجڑ جاتے ہوں گے۔کیا ان لالچی لوگوں کی اپنی بیٹیاں نہیں ہوتیں۔۔۔ کیا یہ کبھی خود بیٹی نہ تھیں۔۔۔پتہ نہیں کب ہمارے معاشرے کو اس جہیز جیسی لعنت سے نجات ملے گی۔ اس جہیز کے گند نے نہ جانے کتنے گھر اجاڑے ہیں او ر ابھی اجاڑ رہا ہے۔۔۔ اور ہم بیٹیاں بیچ میں پس رہی ہیں۔(ح،ن)۔
جہیز ایک مہذب لعنت
آج کتنی جوانیاں گھر بیٹھے مرجھا چکی ہیں؟ آج کتنی عصمتیں سر بازار نیلام ہوتی ہیں ؟ آج کتنے نوجوان اپنے ہاتھوں سے خود کو تباہ کر رہے ہیں؟ اگر جہیز کی لعنت کو چھوڑ کر نکاح کو آسان اور سستا نہ بنایا گیا تو ہر طرف بے راہ روی کہ ایسا سیلاب آئے گا جو سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔ آج ہمارے مسلمان طبقے نے جہیز کی لعنت کو گلے کا طوق بنا لیا ہے. انھیں صرف کافرانہ اور ظالمانہ رسموں کی فکر ہے۔ جہیز کے نام پر شادی بیاہ میں جو خرافات اور مشرکانہ رسوم رائج ہیں ان کا اسلام سے دور تک کوئی تعلق نہیں۔ جہیز کے نام پر نقدی اور لین دین غیر مسلموں کا طریقہ ہے یہ خالص ہندوانہ رسم ہے۔ حقیقت تو یہ ہے جہیز ایک لعنت ہے اور ہم مسلمانوں نے اس لعنت کو تہذیب و تمدن سمجھ کر قبول کر لیا ہے اور یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اس لعنت نے ہمارے معاشرے میں بگاڑ پیدا کر دیا ہے۔
اس میں شبہ نہیں ہے کہ جہیز کی موجودہ شکل ایک تباہ کن رسم ہو کر رہ گئی ہے‘ لڑکی کو ماں باپ اپنی محبت و شفقت میں رخصت ہوتے وقت جو کچھ دیتے ہیں وہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے مگر ہندوانہ رسم کی دیکھا دیکھی اب مسلمانوں میں بھی یہ رسم ایک مطالبہ کی صورت اختیار کر چکی ہے جہیز کے مطالبہ کو پورا کرنے کے لیے آج کتنے گھر اجڑ چکے ہیں۔ لڑکی کی پیدائش جو کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں خوش بختی کی علامت ہے اس کو اس مطالبے نے بدبختی میں تبدیل کر دیا ہے۔ لڑکی کی پیدائش رحمت ہوتی ہے مگر لالچی لوگ اسے زحمت میں بدلنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں ۔
حیرت تو اس پر ہے کے لڑکی اپنے والدین سے کچھ مطالبہ کرے تو کر سکتی ہے کہ ماں باپ سے فرمائش کرنا اس کا پیدائشی حق ہے اگرچہ اسے مطالبہ کرتے وقت اپنے والدین کی بساط و وسعت کا خیال کرنا بھی ضروری ہے مگر ہونے والے داماد اور اس کے گھر والوں کو یہ حق کس نے دیا کہ جہیز کے نام پر لڑکی کے گھر والوں سے فرمائش کریں۔ یہ تو ایک قسم کی مہذب بھیک ہوگئی جسے رسم و رواج کے نام پر قبول کیا جا رہا ہے۔ اسلام دو ہی صورتوں میں مانگنے کی اجازت دیتا ہے یا تو سائل کا حق دوسرے سے متعلق ہو یا پھر سائل اتنا تنگدست ہو کہ اس کا گزر بسر مشکل سے ہوتا ہو اور سوال کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو تو اس کا سوال کرنا جائز ہے۔ ظاہر ہے ہونے والے داماد کا ہونے والی بیوی یا سسرال پر کوئی حق تو ہوتا نہیں جس کا مطالبہ اس کے لیے جائز ہو لہٰذا اب دوسری بات تنگدستی والی رہ جاتی ہے جب کے سماج میں اس بات کی گنجائش نہیں ہے کہ داماد تنگدستی ظاہر کرکہ سسرال سے کچھ تقاضا کرے حالانکہ بقدر ضرورت سوال کرنا اسلام میں جائز ہے . لیکن اگر دونوں صورتیں نہیں توایک قبیح فعل ہے حدیث مبارکہ میں ہے کہ ’’حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جو مال بڑھانے کے لیے سوال کرتا ہے وہ انگارے کا سوار کرتا ہے تو چاہے زیادہ مانگے یا کام (ابن ماجہ) "جہیز کی رسم ایک ناسور کی طرح معاشرے میں پھیل چکی ہیں جس کے باعث دیگر برائیاں ، خود کشی، چوری، طلاق، پرتشد اموات، دھوکہ دہی اور دیگرکئی سماجی مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ بے چارے والدین قرض حاصل کر کہ اپنی لڑکیوں کو بیاہتے ہیں اورپھر ان کی زندگی قرض اتارنے میں گزر جاتی ہے مگر پھر بھی دامادوں کی فرمائشوں کو پورا کرنے کی تگ ودو میں لگے رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح بیٹی کا گھر بنا رہے۔ رسم جہیز قابل لعنت ہے اور انتہائی حقارت سے دیکھے جانے کے قابل ہے اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے یہ فعل نہ سنت ہے نہ واجب اور اسلامی معاشرے میں اس کی نہ کوئی اصلیت ہے نہ حقیقت، بلکہ یہ معاشرے کے لیے ایک ناسور ہے. اگر جہیز کی لعنت کا خاتمہ ہوجائے اور شادیاں سستی ہوجائیں تو کئی نوجوان بچیوں کے چہرے ان گنت خدشات سے پاک ہوجائیں گے اور غریب والدین ان داخلی زنجیروں اور فرسودہ رسموں کے طوق سے آزاد ہوکر اپنے فرائض کو ادا کر سکیں گے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں